Orhan

Add To collaction

بدلتی قسمت

 بدلتی قسمت
 از مہمل نور 
قسط نمبر2

امی آپ نے ابو سے بات کی۔۔۔کیا انہوں نے اجازت دے دی۔۔ کیا میں نانو کے گھر جا سکتی ہوں۔۔۔ہانیہ نے تجسس سے پوچھا۔۔۔
میں نے تمہارے ابو سے بات کی ہے وہ کہہ رہے تھے شام کو وہ خود تم سے بات کریں گے۔۔اب دیکھو وہ  تم سےکیا بات کرتے ہیں۔۔۔پاکیزہ بیگم نے تفصیل سے بتایا۔۔۔
امی آپ کو کیا لگتا ہے ابو مان جاۓ گے۔۔؟؟
دیکھو ہانیہ میں یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتی۔۔تم جانتی ہوکہ تمہارے ابو چاہتے ہیں کہ تمہاری شادی کر دی جاۓ۔۔۔بس جتنا پڑھ لیا کافی ہے۔۔۔
امی آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ بھی یہ بات جانتی ہیں کہ میں نے کتنی محنت کی ہے پڑھائی پر۔۔۔ابو کو کبھی میری فیس نہیں دینی پڑی۔۔۔ہر سال مجھے وظیفے کہ پیسے آتے ہیں میں انہی میں اپنی بکس لیتی ہوں۔۔۔
ہانیہ تمہارے ابو نے تمہیں پڑھائی سے نہیں روکا۔۔۔لیکن تم جانتی ہو تمہارے کے خاندان میں لڑکیاں بارہ جماعت سے زیادہ نہیں پڑھتی۔۔لیکن انہوں نے تمہیں ماسٹرز کروایا۔۔۔پاکیزہ بیگم شنواری صاحب کے دفاع میں بولی۔۔۔
امی یہ بات آپ بھی جانتی ہیں کہ ابو نے مجھے کیسے اجازت دی تھی۔۔۔دو دن تک انکی منت سماجت کرتی رہی۔۔انکی سب شرطیں مانی پھر کہی جاکر انھوں نے اجازت دی تھی۔۔۔اور آپ خود بتائیں اگر میں کچھ بنی تو کس قدر اچھی بات ہوگی۔۔۔سب خاندان والے مجھ پر فخر کریں گے۔۔۔اگر اس چھوٹے سے شہر میں کوئی سی ایس ایس کروانے والی اکیڈمی ہوتی تو میں نانو کے گھر جانے کی ضد کبھی نہ کرتی۔۔۔ہانیہ دکھ سے بولی۔۔۔
اچھا تم فکر مت کرو۔۔۔انشااللہ تمہارے لیے بہتر ہی ہوگا۔۔۔
امی آپ میرے ساتھ ہیں تو میرے لیے سب اچھا ہی ہوگا۔۔ہانیہ نے انکے ہاتھو کو اپنے ہاتھو میں لے کر کہا۔۔۔
میری بچی ماں تو آخری دم تک اپنی اولاد کے ساتھ ہوتی ہے۔۔میں تو بس یہی چاہتی ہوں کہ تمہاری ہر خواہش پوری ہو۔۔۔پاکیزہ بیگم ہانیہ کے پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے بولی۔۔
انکی بات پر ہانیہ مسکرا دی۔۔۔
اچھا یہ سجل کہا ہے نظر نہیں آرہی۔۔۔پاکیزہ نے سجل کی غیر موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔
امی وہ نیچے چچا کی طرف گئی ہے۔۔ماہ نور کے ساتھ پڑھنے۔۔۔ہانیہ نے آگاہ کیا۔۔
کتنی بار کہا ہےمت جایا کرو نیچے۔۔۔لیکن میری تو کوئی بات نہیں سنتا۔۔۔
امی کیا ہوگیا ہے چچا ہیں وہ ہمارے اور کس قدر پیار کرتی ہیں چچی ہم سے۔۔۔اور آپ کہتی ہیں ہم نہ جایا کریں۔۔۔ایسا تو نہیں ہوتا نہ۔۔۔
تم لوگ نہیں جانتے وہ تم لوگو سے دل سے محبت نہیں کرتے۔۔۔وہ صرف دیکھاوا کرتے ہیں۔۔۔حقیقت اس کےبر  عکس ہے لیکن میری اولاد یہ بات کبھی نہیں سمجھے گی۔۔۔پاکیزہ بیگم دکھ سے بولی۔۔۔
امی آپ اپنے دل سے سب بد گمانیاں نکال دے۔۔۔چچی ہم سے ویسے ہی پیار کرتی ہیں جیسے وہ ماہ نور سے کرتی ہیں۔۔۔آپ میرا یقین کریں ۔۔۔
پتانہیں ہانیہ میرے دل سے یہ وہم نہیں نکلتا۔۔۔
اچھا یہ بات چھوڑے امی۔۔میں کے لیے مزے دار سی چاۓ بنا کر لاتی ہوں۔۔ہانیہ مسکراتے ہوئے اٹھی۔۔۔
نہیں بلکل بھی نہیں تم کچن میں نہیں جاؤ گی۔۔کس قدر گرمی ہے۔۔۔میں خودی بنالونگی۔۔۔تم بیٹھو۔۔۔پاکیزہ بیگم نے اسے ہاتھ تھام کر واپس بیٹھایا۔۔
امی میں اب بچی نہیں ہوں۔۔اور مجھے تھوڑی بہت گرمی برداشت تو کرنے دیا کریں۔۔۔
جب وقت آئے گاسب برداشت کرنا سیکھ لوگی۔۔۔محبت سے اسکے رخسار کو سہلاتے چلی گئی۔۔۔
**********
ہانیہ کافی دیرسے شنواری صاحب کا انتظار کر رہی تھی۔۔ایک خوف بھی تھا۔۔کہ اگر انہوں نے انکار کردیا تو اسکے خواب چکناچور ہوجاۓ گے۔۔۔اس نے میٹرک کے بعد زیادہ محنت کرنا شروع کر دی کہ اسے اپنے ماموں کی طرح سی ایس ایس آفسر بننا ہے اپنے خاندان کا نام روشن کرناہے۔۔انکے خاندان میں لڑکیوں کی چھوٹی عمر میں ہی شادی کر دی جاتی تھی۔۔لیکن شنواری صاحب نے ابھی تک اسکی شادی نہیں کی تھی اور نہ ہی اس بات پر ابھی تک توجہ دی تھی۔۔۔لیکن اسے  لگا تھا کہ اب وہ اسکی شادی کرنا چاہتے ہیں۔۔۔
ابھی وہ اپنی خیالوں میں کھوئی کمرے میں چکر لگا ہی رہی تھی کہ اسے کمرے میں شنواری صاحب آتے دیکھے۔۔۔انکو دیکھتے ہی ہانیہ نے اپنا دوپٹہ سیٹ کیا۔۔۔اور سر جھکا کر انہیں سلام کیا۔۔۔شنواری صاحب نے سنجیدگی سے اسکی طرف دیکھا۔۔اور سامنے کرسی پر براجمان ہوۓ۔۔۔
بیٹھو۔۔۔انہوں نےاپنے مخصوص انداز میں اسے حکم صادر کیا۔۔۔
انکی آواز پر ہانیہ فوراً سر جھکائیں انکے سامنے بیڈ بیٹھ گئی۔۔۔
تمہاری امی بتارہی تھی تم اماں جی کے گھر جانا چاہتی ہو۔۔۔انہوں نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔
جی ابو۔۔۔ہانیہ نے ادب سے جواب۔۔۔
اور تم یہ بھی جانتی ہو کہ ہمارے یہاں لڑکیاں شہر سے باہر پڑھنے نہیں جاتی۔۔۔ویسے بھی تم نے ماسٹرزکر لیا ہے۔۔۔کیا یہ کافی نہیں ہے۔۔۔اور تمہاری عمر کی ہر لڑکی کی شادی ہو چکی ہے۔۔۔اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ۔۔۔اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتے ہانیہ انکے قدموں میں بیٹھ گئی۔۔۔
ابو پلیز میری یہ آخری خواہش سمجھ کر مان جاۓ۔۔۔آپ جانتے ہیں مجھے سی ایس ایس کرنے کا کس قدر شوق ہے۔۔ابو پلیز میری بات مان لے صرف ایک سال کی بات ہے۔۔۔اگر یہاں کوئی اچھی اکیڈمی ہوتی تو میں آپ کو کبھی تنگ نہیں کرتی۔۔۔پلیز ابو مجھے جانے دے۔۔۔ہانیہ نے التجا کی۔۔
اچھا اٹھو۔۔۔اور ادھر بیٹھو میرے پاس۔۔ انکی آواز میں اب کی بار نرمی تھی۔۔۔
ہانیہ خاموشی سے انکے برابر میں آکر بیٹھ گئی۔۔۔اب اسے انکے سنائیں جانے والے فیصلے کا انتظار تھا۔۔۔
دیکھو ہانیہ اگر میں تمہیں بھیج بھی دوں تو اس بات کی کیا گرنٹی ہے تم واقعی کچھ نہ کچھ بن کر آؤگی۔۔۔میرا مطلب ہے سی ایس ایس کے پیپرز دینا کوئی آسان کام نہیں ہے کیا تم کر پاؤگی۔۔۔انہوں نے سوالیہ نظرو سے ہانیہ کو دیکھا۔۔۔
جی ابو میں دن رات محنت کروں گی۔۔۔اور میں وعدہ کرتی ہوں آپ سے۔۔۔ میں آپ کو کلئیر کر کے دیکھاؤنگی۔۔۔اس کےایک ایک الفاظ سے اسکا جذبہ محسوس کیاجاسکتاتھا۔۔۔
ٹھیک ہے ایک سال ہے تمہارے پاس۔۔۔اسکے بعد میں تمہیں ایک پل بھی وہاں نہیں روکنے دونگا۔۔۔اس لیے تمہیں  پہلی بار میں کلئیر کرنا ہوگا۔۔کیونکہ میں دوبارہ تمہیں موقع نہیں دونگا۔۔۔اگر منظور ہے تو بتا دو کل تمہیں ثمر چھوڑ آئے گا۔۔۔ایک بات اور ایک سال بعد میں فوراً تمہاری شادی کر دونگا وہ بھی اپنی مرضی سے۔۔۔کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔
ٹھیک ہے ابو مجھے آپ کی ہر شرط منظور ہے۔۔۔ہانیہ نے انھیں جواب دیا۔۔۔
اپنی تیاری کر لو کل تمہیں لاہور کے لیے نکلنا ہے۔۔۔اپنی بات مکمل کرتے ہی وہ کمرے سے چل دیے۔۔۔
انکے جاتے ہی ہانیہ نے ناچانا شروع کر دیا۔۔ اسکی تو خوشی کی انتہاکو چھو رہی تھی۔۔۔دو دو خواہشیں پوری ہونے والی تھی۔۔۔بس اب اسے کل کا انتظار تھاجب وہ لاہور کے لیے نکلے گی۔۔۔

   1
0 Comments